حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ

  • Admin
  • Sep 29, 2021

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ 

ایک قابل تقلید شخصیت:

امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام "نعمان"ہے۔آپؒ کے والد ماجد کا نام "ثابت"ہے۔ آپ ؒکے آباء واجداد فارسی النسل تھے۔ مشہور ہے کہ جب آپؒ کے والد کی کوفہ میں پیدائش ہوئی تو آپ ؒکے دادا (جن کا نام "زُوطیٰ" تھا) انہیں امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں لے گئے۔آپؑ نے ان کے اوران کی نسل کے حق میں برکت کی دعا فرمائی۔

امام صاحب کی کنیت "ابوحنیفہ"ہے۔اس بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے کہ یہ کس بنیاد پر رکھی گئی۔بعض حضرات نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ چوں کہ آپ ؒنے دین حنیف کی جزئیات وفروع امت کے سامنے پیش کیں، اس لئے آپؒ کی کنیت ’’ابوحنیفہ‘‘ رکھی گئی، اور بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ لفظ ’’حنیفہ‘‘ عراقی زبان میں ’’دوات‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور آپ چوںکہ مسلسل علمی مشغلہ میں لگے رہتے تھے، اس وجہ سے آپ کو ’’ابوحنیفہ‘‘ کہا گیا۔ جب کہ بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ آپ ؒکی کسی بیٹی کا نام ’’حنیفہ‘‘ تھا، جس کی طرف آپؒ کی نسبت کی گئی،لیکن چوں کہ تاریخ میں آپؒ کی اولاد میں صرف ایک نرینہ اولاد حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کا پتہ چلتا ہے، کسی اور کاتذکرہ نہیں ہے، اس لئے اس قول کی تردید کی گئی ہے۔ 

(مقدمہ: اوجز المسالک للشیخ زکریا ۱؍۱۷۵-۱۷۶ مطبوعہ دار القلم دمشق)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاﷲ کا شجرہ نسب:

 امام صاحبؒ کے پوتے نے اپنے دادا کا شجرہ یوں بیان کیا " اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن المر زبان "

ولادت :

امام صاحبؒ کی پیدائش 80ہجری میں خلافتِ بنواُمیہ میں عبدالملک بن مروان کے دور میں ہوئی۔اُس وقت کوفہ علومِ نبوت کا مرکز تھا، اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس وقت باحیات تھے۔

شرفِ تابعیت:

حضرت امام صاحبؒ کا متعدد صحابہ کی زیارت کرنا ثابت ہے۔ امام یافعیؒ نے اس ضمن میں خاص طور پر چار صحابہ کا ذکر فرمایا ہے:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفی ۹۳ھ) جو بصرہ میں مقیم تھے۔

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ (المتوفی ۸۷ھ) جو کوفہ میں مقیم تھے۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ(المتوفی ۸۸ھ) جو مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔

حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفی ۱۰۲ھ) جو مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔

 (مقدمہ: اوجز المسالک للشیخ زکریا ۱۷۶، ابوحنیفہ؛ حیاتہ وعصرہ ۷۴)

اس اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہؒ کو تابعی ہونے کا شرف حاصل ہےجو دیگر ائمۂ متبوعین میں آپؒ کا خاص امتیاز ہے۔

تحصیلِ علم:

حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا گھرانہ کوفہ کے مال دار تجارتی گھرانوں میں سے تھا۔آپ ؒکے یہاں کپڑوں کی تجارت ہوتی تھی۔ بچپن میں آپؒ نے قرآنِ کریم حفظ کیا اورتجوید وقرأت کا علم امام التجوید حضرت امام عاصم کوفیؒ سے حاصل کیا۔ اس کے بعد آپؒ  کا زیادہ تر وقت تجارتی مشاغل میں گذرنے لگا۔اسی دوران آپؒ کی ملاقات محدثِ کبیر حضرت امام عامر شعبیؒ سے ہوئی۔ انہوں نے آپؒ کے مشاغل پوچھے اور پھر نصیحت فرمائی کہ: 

میں تمہارے اندر ہوشیاری اور بیدار مغزی دیکھ رہا ہوں۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ تم علم دین میں رسوخ حاصل کرواور علماء وقت کی مجالس میں حاضری دو۔

امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ امام شعبیؒ کی یہ نصیحت میرے دل میں جاگزیں ہوگئی اور میں نے بازار کی آمد ورفت کم کرکے اپنے اوقات تحصیل علم میں لگانے شروع کردئےجس سے اللہ نے مجھے بے حد نفع پہنچایا۔

 (ابوحنیفہ؛ حیاتہ وعصرہ للشیخ ابوزہرہ مصری ۲۲، عقود الجمان ۱۶۰-۱۶۱)

آپؒ کے سفر:

 امام اعظمؒ نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ ؒنے علم حدیث اور فقہ سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپؒ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث اور فقہ کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپؒ علم حدیث و فقہ کے گرا میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپؒ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔

فقہ میں مہارت:

امام صاحبؒ نے ویسے تو علم دین کے سبھی شعبوں میں مہارت حاصل کی۔ عربی ادب، نحو وصرف اور تفسیر وحدیث کے ساتھ ساتھ علم کلام میں آپؒ کو ید ِطولیٰ حاصل ہوا، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر فرقِ باطلہ سے آپ ؒنے مناظرے بھی فرمائے، لیکن جلد ہی آپؒ کو احساس ہوگیا کہ ان سب علوم میں انجام کے اعتبار سے سب سے زیادہ مفید علم ’’فقہ وفتاویٰ‘‘ کا ہے، اور اس کا ظاہری سبب یہ بنا کہ 

ایک مرتبہ ایک عورت آپ ؒکے پاس آئی، اور یہ مسئلہ دریافت کیا کہ ’’ایک شخص کے نکاح میں باندی ہے اور وہ اسے سنت کے مطابق طلاق دینا چاہتا ہے، تو کیا طریقہ اختیار کرے‘‘؟ حضرت الامام ؒنے اس عورت کو فقیہ عراق امام حماؒدبن ابی سلیمانؒ کے پاس بھیج دیا، اور عورت سے یہ کہا کہ وہ جو مسئلہ بتائیں تو مجھے آکر خبر کرنا، چنانچہ وہ عورت حضرت حمادؒ کے پاس گئی اور مسئلہ پیش کیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اس شخص کو چاہئے کہ باندی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں قربت نہ کی ہو، اس کے بعد جب دو حیض گذر جائیں اور وہ پاک ہوجائے (کیوں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے) تو اس کے لئے دوسرے سے نکاح کرنا جائز ہوجائے گا۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر یہ مسئلہ سن کر فقہ کی عظمت آشکارا ہوئی اور آپؒ نے دیگر علوم کی طرف سے توجہ ہٹالی اور پختہ ارادہ کرلیا کہ حضرت حمادؒ کی شاگردی اختیار کریں گے۔ چنانچہ آپؒ نے 22سال کی عمر سے 40سال کی عمر تک تقریباً 18سال حضرت حماد بن ابی سلیمانؒ سے اکتسابِ فیض فرمایا:

 تا ٓاں کہ آپ ؒکا شمار ان کے سب سے بڑے شاگردوں میں ہونے لگا، اور فقہ حنفی کا اکثر مدار حماد بن ابی سلیمانؒ کی آراء پر ہے، جو اپنے دور میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔ (تلخیص: ابوحنیفہ؛ حیاتہ وعصرہ ۲۶-)۳۱

اس کے علاوہ آپ ؒنے مختلف شہروں میں جاکر مختلف علماء اور ائمہ سے اکتسابِ فیض کیا، حتیٰ کہ مشہور ہے کہ آپؒ نے 4ہزار اساتذہ سے استفادہ کیا، جن میں سے بہت سے حضرات کے نام ’’عقود الجمان‘‘ میں جمع کردئے گئے ہیں۔ 

(دیکھئے: عقود الجمان ۶۲-۱۵۹ طبع مکتبۃ الایمان مدینہ منورہ)

آپؒ نے فقہ میں اتنا اونچا مقام حاصل کیا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر امام الفقہ سے آپ ؒکی قدر دانی میں یہ جملے صادر ہوئے: 

’’من أراد الفقہ فہو عیال علی أبي حنیفۃ‘‘

(یعنی جو شخص فقہ میں مہارت کا ارادہ کرے وہ امام ابوحنیفہؒ کا محتاج ہے) 

(الانتقاء للامام بن عبدالبر )۲۱۰

اہم اساتذہ:

اوپر جو ذکر ہوا کہ حضرت الامام ؒنے 4ہزار سے زائد شیوخ سے علم حاصل کیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپؒ نے کسی استاذ سے ایک حدیث بھی سنی ہے، تو ان کو شیوخ میں شامل کرلیا گیا ہے، اور اس دور میں علم کے حصول کا طریقہ یہی تھا کہ مشائخ حدیث کے پاس طالبانِ علومِ نبوت سفر کرکے حاضر ہوتے تھے، اور اُن سے حدیثیں سن کر محفوظ کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت الامامؒ نے علمی اسفار کئے، اور بعض وجوہات سے اَواخر دور بنی اُمیہ میں تقریباً 6سال مکہ معظمہ میں قیام فرمایا۔ اسی طرح سفر حج کے دوران حرمین شریفین میں اَکابر علماء ومحدثین کی زیارت وملاقات کا شرف حاصل کیا، تو اِن سب حضرات کو شامل کرکے ایک تخمینی تعداد 4ہزار کی ذکر کی گئی ہے۔ 

ان اساتذہ میں خاص کر درج ذیل حضرات قابل ذکر ہیں : 

(۱) حضرت عطاء بن ابی رباحؒ (۲)حضرت عامر شعبی ؒ(۳) حضرت جبلہ بن سہیمؒ (۴) عدی بن ثابتؒ (۵) عبد الرحمن بن ہرمز الاعرج ؒ(۶) عمر بن دیناؒر (۷) ابوسفیان طلحہ بن نافؒع (۸) نافع مولیٰ ابن عمرؒ (۹) حضرت قتادہ ؒ(۱۰) قیس بن مسلم ؒ(۱۱) عون بن عبد اللہؒ (۱۲) قاسم بن عبدالرحمنؒ بن عبد اللہ بن مسعودؒ (۱۳)محارب بن دِثارؒ (۱۴) عبد اللہ بن دینارؒ (۱۵) حکم بن عتیبہ ؒ(۱۶) علقمہ بن مرثدؒ (۱۷) علی بن الاقمرؒ (۱۸) عبد العزیز بن رفیع ؒ(۱۹) عطیہ العوفیؒ (۲۰) حماد بن ابی سلیمان ؒ(جو فقہ میں آپ ؒکے خاص استاذ ہیں) (۲۱) زیاد بن علاقہؒ (۲۲) سلمہ بن کہیلؒ (۲۳) عاصم بن کلیبؒ

 (۲۴) سماک بن حربؒ (۲۵) عاصم بن بہدلہ ؒ(۲۶) سعید بن مسروقؒ (۲۷) عبدالملک بن عمیرؒ (۲۸) ابوجعفر محمد باقرؒ (۲۹)ابن شہاب زہری ؒ(۳۰) محمد بن المنکدرؒ (۳۱) ابواسحق سبیعیؒ (۳۲) منصور بن المعتمر ؒ(۳۳)مسلم البطین ؒ

(۳۴) یزید بن صہیب الفقیر ؒ(۳۵) ابوحصین الاسدی ؒ(۳۶) عطاء بن السائب ؒ(۳۷) ہشام بن عروہ ؒ(۳۸) ناصح الحلمیؒ (۳۹) شیبان نحوی ؒ(۴۰) امام مالک بن انس ؒ(۴۱) امام سلیمان اعمش رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔ 

(مقدمہ التحقیق: رد المحتار عادل عبد الموجود ۱؍)۴۶

(ان کے علاوہ بہت سے اسماء عقود الجمان میں حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کردئے گئے ہیں۔ (دیکھئے عقود الجمان ۶۳-

مذکورہ بالا ناموں کو پڑھ کر اہل علم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امام صاحب ؒنے اپنے دور کے اکثر اکابر محدثین سے علمی استفادہ کیا تھا، اور ہر علمی طبقہ سے رجوع کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی، جس کی بنا پر آپؒ کی نظر میں وسعت اور ذہن میں بے مثال گیرائی پیدا ہوگئی تھی، فالحمد کلہ للہ۔

امام ابوحنیفہؒ کا اپنے اساتذہ کی حد درجہ تعظیم کرنا:

تجربہ سے یہ بات صادق ہے کہ جو لوگ اپنے اساتذہ کی دل سے تعظیم بجالاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے علوم میں بے مثال برکت عطا فرماتا ہے، اور انہیں ایسے تلامذہ نصیب ہوتے ہیں، جو ان کے فیوض کو عام کرنے کا سبب بنتے ہیں، اس کی واضح مثال حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی مبارک زندگی میں ہمیں ملتی ہے۔

آپ ؒکا اپنے اساتذہ کے ساتھ کیا برتاؤ تھا، اُس کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ؒفرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اپنے استاذِ محترم حضرت حماد بن ابی سلیمانؒ کی تعظیم میں ان کے گھر کی طرف کبھی اپنے پاؤں نہیں پھیلائے، حالانکہ میرے اور اُن کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا‘‘۔

نیز فرمایا کہ: ’’جب سے حضرت حماد رحمہ اللہ کا انتقال ہوا، تو میں نے کوئی ایسی نماز نہیں پڑھی جس میں اپنے والد ماجد کے ساتھ حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کے لئے دعاء مغفرت نہ کی ہو‘‘۔

اور فرمایا کہ: ’’میں ان سب کے لئے دعا کرتا ہوں، جن سے میں نے علم دین سیکھا یا جن کو میں نے علم دین سکھلایا‘‘۔ (مقدمہ: کتاب الآثار، للشیخ ابوالوفاء الافغانی ۱؍)۳۳

آپؒ کے اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو ایسے ہونہار شاگرد عطا فرمائے، جنہوں نے اپنی بہترین صلاحیتیں آپؒ پر نچھاور کردیں، اور وہ لوگ بھی آپؒ کے لئے ایسے ہی دعا کرنے والے بن گئے، جیسے آپؒ اپنے اساتذہ کے لئے دعا کرتے تھے۔

چنانچہ منقول ہے کہ آپؒ کے شاگردِ رشید حضرت امام ابویوسفؒ فرماتے تھے کہ میں اپنے والدین سے پہلے استاذِ محترم امام ابوحنیفہؒ کے لئے دعا کرتا ہوں؛ کیونکہ میں نے امام صاحبؒ سے سنا ہے کہ: ’’میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے استاذ حضرت حمادؒ کے لئے دعا کرتا ہوں‘‘۔ (مقدمہ: کتاب الآثار، للشیخ ابوالوفاء الافغانی ۱؍۳۳)

اہم تلامذہ:

کسی استاذ کو اچھے تلامذہ میسر آجانا اس پر اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل کی نشانی سمجھا جاتا ہے، چنانچہ امام صاحبؒ کو بھی انتہائی قابل، محنتی اور جانثار تلامذہ کی ایک جماعت عطا کی گئی، جن کے ذریعہ آپؒ کے علوم اور افادات کی بے نظیر اشاعت ہوئی، آپ ؒکے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے:لیکن اُن میں سے درج ذیل حضرات ایسے مشہور ہوئے کہ جب بھی امام صاحبؒ کا نام آتا ہے تو ان کی طرف بھی بے اختیار ذہن متوجہ ہوجاتا ہے۔

حضرت امام ابویوسفؒ:

جن کا اصل نام یعقوب بن ابراہیم انصاریؒ ہے، 113ھ میں پیدا ہوئے، بچپن سے حضرت امام ابوحنیفہؒ کی سرپرستی میں رہے، اور علوم نبوت میں درجہ کمال کو پہنچے، امام صاحبؒ کی وفات کے بعد 32سال باحیات رہے، اور 182میں وفات ہوئی، خلفائے عباسیہ (مہدی، ہادی اور ہارون رشید) کے دور میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز رہے، اور بڑی نیک نامی اور عزت ووقار کی زندگی گذاری، متعدد قیمتی تصانیف مرتب فرمائیں، جن میں ’’کتاب الخراج‘‘ اور ’’کتاب الآثار‘‘ وغیرہ مشہور ہیں۔ (ابوحنیفہ؛ حیاتہ وآراء ہ ۲۲۰-)۲۳۱

امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ:

آپ ؒکی پیدائش 132ھ میں ہوئی، امام صاحبؒ کی وفات کے وقت آپ کی عمر 18سال کی تھی، اس لئے امام صاحبؒ سے زیادہ استفادہ کا موقع نہ مل سکا، لیکن آپؒ نے علم فقہ کی تکمیل حضرت امام ابویوسفؒ کی خدمت میں رہ کر فرمائی، اور اپنی بے نظیر ذکاوت وذہانت، جودتِ طبع اور علوم اسلامیہ میں کامل مہارت کی وجہ سے فقہ حنفی کے مرجع قرار پائے۔ آپ ؒنے حضرت امام مالکؒ سمیت بہت سے محدثین سے بھی علم حاصل کیا، اور فقہ حنفی کی تدوین کا عظیم کارنامہ انجام دیا، آج آپؒ کی کتابیں ہی فقہ حنفی کے اصل ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں، 189ھ میں وفات پائی۔ 

(ابوحنیفہ؛ حیاتہ وآراء ہ )۲۳۲

امام زفر بن ہذیلؒ:

آپؒ کی پیدائش 110ھ میں ہوئی، آپؒ امام صاحبؒ سے سب سے لمبی مدت تک استفادہ کرنے والے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں، اور آپؒ کی آراء زیادہ تر ظاہری قیاس پر مبنی ہونے کی وجہ سے آپ کو قیّاس (بہت قیاس کرنے والا) کا لقب دیا گیا ہے، چونکہ آپ ؒکی وفات حضرت امام صاحبؒ کی وفات کے صرف آٹھ سال بعد 158ھ میں ہوئی، اس لئے آپؒ کی کوئی مستقل تالیف منقول نہیں ہے۔(ابوحنیفہ؛ حیاتہ وآراء ہ )۲۴۵

امام حسن بن زیاد اللؤلؤی الکوفیؒ:

آپؒ بھی امام صاحبؒ کے مشہور شاگرد ہیں، اور کتبِ فقہ میں آپؒ کے حوالے سے امام صاحبؒ کی بعض روایتیں نقل کی جاتی ہیں، مگر امام محمدؒ کی نقل کردہ روایات کے مقابلہ میں امام حسن بن زیادؒ کی روایات کا درجہ کم قرار دیا گیا ہے، آپؒ امام صاحبؒ کی وفات کے بعد 52سال زندہ رہے، اور 202ھ میں وفات پائی۔ 

(ابوحنیفہ؛ حیاتہ وآراء ہ )۲۴۶

ان کے علاوہ بھی بہت سے تلامذہ ہیں، جن کی طویل فہرست عقود الجمان (۸۸-۱۵۹) پر درج ہے۔ 

حلیۂ مبارکہ:

حضرت امام صاحبؒ میانہ قد تھے، اور پرکشش وجاہت کے حامل تھے، گفتگو فصیح وبلیغ اور مدلل فرماتے، اور عام طور پر کم گو اور کم آمیز رہتے تھے، زبان کو فضول گوئی سے محفوظ رکھتے، اورکسی بھی حالت میں متانت وسنجیدگی کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، آپؒ کا لباس باوقار ہوتا تھا، اکثر لمبی ٹوپی استعمال کرتے، کپڑے خوشبو میں معطر رہتے۔ 

(مقدمہ اوجز المسالک )۱۷۶

چند اخلاقِ فاضلہ:

علم کا سب سے بڑا اثر آدمی کی عملی زندگی پر مرتب ہونا چاہئے، اگر علم وعمل میں مطابقت ہے تو انسان کامل ہے، اور اگر قول وعمل میں تضاد ہے، تو محض علم سے آدمی کو فلاح نصیب نہیں ہوسکتی، اس معاملہ میں جب ہم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آپؒ علم وعمل کے جامع اور اخلاقِ نبوت کے پیکر تھے، جس کا کچھ اندازہ درج ذیل مشاہدات وواقعات سے ہوسکتا ہے۔

تواضع:

امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی تواضع کا اندازہ آپؒ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ؒکی والدہ محترمہ کو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی، امام صاحبؒ نے مسئلہ کا حکم بتادیا، تو آپؒ کی والدہ اس پر مطمئن نہ ہوئیں او رکہا کہ میں تو’’زرعہ قاص‘‘ کے قو ل کو مانوں گی، چنانچہ حضرت امام صاحب ؒاپنی والدہ محترمہ کو لے کر’’زرعہ‘‘کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ میری والدہ محترمہ آپؒ سے فلاں فلاں مسئلہ کے بارے میں فتوی لینے آئی ہیں ’’حضرت زرعہؒ ‘‘نے فرمایا کہ: آپؒ تو خود ہی سب سے بڑے عالم اور فقیہ ہیں، آپؒ ہی بتادیں! تو امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو انھیں یہ فتوی دیا ہے، ’’حضرت زرعہؒ ‘‘نے آپ ؒکی والدہ ماجدہ سے کہاکہ مسئلہ وہی ہے جو امام صاحب نے بتایا ہے، ان کی زبانی تائید سنکر والدہ محترمہ کو اطمینان ہوا۔ (عقود الجمان )۲۹۴

اسی طرح امام صاحبؒ عمرابن ذرؒ کی مجلس میں بھی والدہ محترمہ کو لے کرجاتے، وہ خود عمر ابن ذرؒ سے مسئلہ معلوم کرتیں اور عمر ابن ذر ؒامام صاحب ؒ سے حکم معلوم کرکے آپ کی والدہ محترمہ کو مسئلہ بتایا کرتے تھے۔ 

(عقودالجمان )۲۹۲

حلم وبردباری:

حضرت امام صاحبؒ کی مقبولیت اور بے مثل محبوبیت میں ان کی حلم وبردباری کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔

آپؒ خود فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے کبھی کسی کی برائی پر بدلہ نہیں لیا اور نہ میں نے کسی کو گالی دی، اور نہ کبھی کسی مسلمان یا ذمی پر ظلم کیا اور نہ کبھی کسی کے ساتھ خیانت کی اور نہ دھوکہ دیا‘‘۔ (عقود الجمان )۲۸۸

ایک مرتبہ مناظرہ کے دوران فریقِ مخالف نے آپؒ کو زندیق اور بدعتی ہونے کا طعنہ دیا، مگر حضرت امام صاحبؒ نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ: ’’بھائی! اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے میرے بارے میں جو رائے قائم کی ہے، میرے بارے میں میرے اللہ کا علم اس کے برخلاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ

 میں نے اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کے علاوہ کبھی کسی کو نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا اور مجھے اس کی رحمت کے سوا کسی سے امید نہیں، اور اس کی سزا کے علاوہ مجھے کسی کا خوف نہیں‘‘سزا کا ذکر آتے ہی آپؒ پر سخت گریہ طاری ہوگیا، تاآں کہ آپؒ بے ہوش ہوکر گرپڑے، جب ہوش آیا تو اسی برا کہنے والے شخص نے معافی کی درخواست کی، آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جاہلوں میں سے جو شخص میرے بارے میں غلط بات کہے وہ معاف ہے، لیکن اہل علم میں سے جو شخص مجھ پر الزام لگائے تو معاف نہیں، اس لئے کہ علماء کی بیان کردہ غیبت ان کے مرنے کے بعد بھی (کتابوں وغیرہ میں باقی رہتی ہے‘‘۔ (عقود الجمان )۲۲۶

عاصم بن یوسفؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ درس وتدریس میں مشغول تھے اور مسجد کے ایک گوشہ میں ایک شخص آپؒ کو مسلسل گالیاں دے رہا تھا، مگر امام صاحبؒ اپنے کام میں مشغول تھے، نہ تو اس کی طرف متوجہ ہوئے نہ جواب دیا، اور اپنے شاگردوں کو بھی اس سے گفتگو کرنے سے منع کردیا، جب درس ختم ہوا (اور آپؒ دولت کدہ کی جانب تشریف لے چلے) تو وہ شخص بھی آپ ؒکے پیچھے ہولیا (اور برا بھلا کہتا رہا) امام صاحبؒ جب اپنے گھر پہنچے تو دروازہ پر کھڑے ہوکر اس گالی دینے والے شخص سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا کہ: ’’بھائی یہ میرا گھر ہے! اگر تم اپنی بات پوری کرنا چاہو حتی کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے وہ سب کہہ لو تو شوق سے کہو (میں اسے سن کر ہی اندر جاؤں گا) امام صاحبؒ کا یہ حلیمانہ جواب سن کر وہ شخص شرمندہ ہوگیا‘‘۔ (عقود الجمان )۲۹۱

جعفر بن الربیعؒ فرماتے ہیں کہ میں امام صاحبؒ کے ساتھ پانچ سال رہا، میں نے آپؒ سے زیادہ محتاط زبان والا شخص کسی کو نہیں دیکھا، آپؒ زیادہ تر خاموش رہتے؛ لیکن جب کوئی فقہی مسئلہ معلوم کیا جاتا تو آپ ؒکا دریائے علم جوش میں آجاتا، آپ ؒکی آواز بلند اور لہجہ عمدہ تھا۔

نضر بن محمدؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام صاحبؒ سے زیادہ متقی اور پرہیزگار شخص کسی کو نہیں دیکھا، آپؒ کو ہنسی مذاق پسند نہیں تھا، اور میں نے کبھی آپ ؒکو ٹھٹھے مارکر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا؛ البتہ آپؒ مسکراتے تھے۔ 

(مقدمہ: اوجز المسالک للشیخ زکریا ۱؍۱۷۷ مطبوعہ دار القلم دمشق)

جود وسخا :

امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہؒ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، دیکھا کہ شرکاء مجلس میں ایک شخص کے کپڑے پھٹے پرانے ہیں تو آپؒ نے اسے بیٹھے رہنے کا حکم دیا، تاآں کہ دیگر اہل مجلس چلے گئے تو آپ ؒنے اس شخص سے فرمایا کہ اپنے مصلے کے نیچے جو کچھ ہو اسے لے لو اور اپنی ضروریات میں صرف کرلو، اس نے جب مصلی اٹھایا تو اس میں ایک ہزار درہم نکلے جسے وہ لے کر چلا گیا۔ (العلم والعلماء )۳۰۶

ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ قرض کی وجہ سے قید ہوگئے، حضرت امام ابوحنیفہؒ کو جب معلوم ہوا تو آپ ؒنے ان کا سارا قرضہ جو چار ہزار درہم سے زیادہ تھا اپنی طرف سے ادا کرکے انہیں قید سے رہائی دلائی۔ 

(العلم والعلماء )۳۰۶

اسماعیل بن حماد ؒکہتے ہیں کہ جب امام ابوحنیفہؒ کے صاحب زادے حضرت حمادؒ استاذ کے پاس سورۂ فاتحہ پڑھنے کے لائق ہوگئے تو امام صاحبؒ نے ان کے استاذ کو پانچ سو درہم (اور ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار درہم) بطور ہدیہ ارسال فرمائے تو وہ استاذ صاحب حیرت میں پڑگئے اور کہنے لگے کہ میں نے کون سا ایسا کام کیا ہے کہ مجھے اتنا زیادہ انعام دیا گیا؟ امام صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو آپؒ خود ان استاذ صاحب کی خدمت میں تشریف لے گئے اور معذرت کے انداز میں ارشاد فرمایا کہ ’’جناب! آپؒ نے میرے بچے کو جو سکھایا ہے اسے حقیر نہ سمجھئے، اللہ کی قسم اس وقت ہمارے پاس اور زیادہ ہوتا تو ہم قرآن کی تعظیم میں اسے بھی آپؒ کی خدمت میں پیش کردیتے‘‘۔ (عقود الجمان )۲۳۳

مسعر بن کدامؒ سے روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا دستور تھا کہ جب بھی اپنے اہل وعیال کے لئے کچھ خریدتے تو اتنا ہی دیگر علماء عظام کے لئے بھی خرید فرماتے، جب کپڑا بناتے تو پہلے علماء ومشائخ کے لئے انتظام فرماتے، حتی کہ اگر پھل فروٹ خریدنے ہوتے تو پہلے مشائخ کے یہاں خرید کر بھجواتے، پھر اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے خریدتے تھے۔ (عقود الجمان )۲۳۴

سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ امام ابو حنیفہؒ بہت زیادہ خیر خیرات کرنے والے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے میرے پاس اس قدر کثیر مقدار میں ہدیہ بھیجا کہ مجھے اس کی زیادتی سے ناگواری ہوئی جس کا ذکر میں نے امام صاحبؒ کے بعض شاگردوں سے کیا تو ان شاگردوں نے کہا یہ توکچھ نہیں ہے، اگر آپ وہ ہدیہ دیکھ لیتے جو امام صاحب نے سعید بن عروبہؒ کو بھیجا ہے (تو اس کی کثرت کے مقابلہ میں) اپنے ہدیہ پر کچھ تعجب نہ کرتے۔ (عقود الجمان )۲۳۴

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ اپنے سب پہچان کے لوگوں پر نہایت خرچ کرنے والے تھے، کبھی آپؒ کسی کو پچاس دینار دیتے پھر اگر وہ لوگوں کے سامنے شکریہ ادا کرتا، تو آپ ؒکو سخت افسوس ہوتا، اور آپؒ فرماتے کہ بھائی اللہ تعالی کا شکر ادا کرو، یہ رزق آپ کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے۔ (عقود الجمان )۲۳۵

امام ابو یوسفؒ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ میرے استاذ امام ابو حنیفہؒ نے میرے اور میرے گھر والوں کا مکمل خرچ دس سال تک اپنے پاس سے ادا فرمایا ہے اور میں نے آپ سے زیادہ نیک صفات کا جامع کسی شخص کو نہیں دیکھا‘‘۔ (عقود الجمان )۲۳۵

حسن بن سلیمانؒ کہتے ہیں کہ ’’میں امام ابو حنیفہؒ سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا، انہوں نے اپنے شاگردوں کی ہر ایک جماعت کا ماہانہ وظیفہ اپنی طرف سے مقرر کر رکھا تھا اور سالانہ تحفہ وتحائف کا معمول اس کے علاوہ تھا‘‘۔

 (عقود الجمان )۲۳۵

عبد اللہ بن بکر سہمیؒ فرماتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ مکہ جاتے ہوئے راستہ میں میرا اونٹ والے سے کرایہ پر جھگڑا ہوگیا، امام صاحبؒ بھی سفر میں ہمراہ تھے، وہ اونٹ والا فیصلہ کے لئے مجھے امام صاحبؒ کے پاس لے گیا، امام صاحبؒ نے ہم دونوں کے بیانات سنے، پھر پوچھا کہ اصل اختلاف کتنی مقدار میں ہے، اونٹ والے نے کہا کہ چالیس درہم میں، تو امام صاحب نے تعجب سے فرمایا کہ لوگوں کی مروّت بالکل ہی جاتی رہی (کہ چالیس درہم پر جھگڑا ہونے لگا) عبد اللہ کہتے ہیں کہ امام صاحبؒ کی اس وسعت ظرفی پر میں تو شرمندہ ہوگیا اور امام صاحبؒ نے اپنی طرف سے اونٹ والے کو چالیس درہم ادا فرمائے‘‘۔ (عقود الجمان )۲۳۷

ورع وتقویٰ:

امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ورع وتقویٰ ضرب المثل ہے، آپ ؒکے تمام معاصر کھلے الفاظ میں گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے دور میں امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ متقی نہیں دیکھا۔

علی بن حفص ؒکہتے ہیں کہ حفص ابن عبد الرحمن امام ابوحنیفہؒ کے کاروبار میں شریک تھے، ایک مرتبہ امام صاحبؒ نے ان کے پاس کچھ سامان فروخت کے لئے بھیجا اور کہا کہ اس میں ایک کپڑا ہے جس میں فلاں عیب ہے، اس لئے جب اسے فروخت کریں تو گاہک سے عیب بیان کردیں۔ اتفاق یہ ہوا کہ حفص بن عبد الرحمن نے وہ سب سامان بیچ ڈالا اور عیب بتانا بھول گئے اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ کس نے وہ کپڑا خریدا ہے، جب امام ابوحنیفہؒ کو یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے عیب بتائے بغیر سامان بیچ دیا ہے تو آپ ؒنے اس کی ساری آمدنی صدقہ فرمادی، جس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی، اور حفص ابن عمر سے کاروباری شرکت ختم کردی۔ (عقود الجمان )۲۴۱

ایک مرتبہ کوفہ میں کچھ لوگ بکریاں کہیں سے لوٹ مار کرکے لائے اور انہیں کوفہ کے بازار میں فروخت کردیا، وہ بکریاں شہر کی بکریوں میں رَل مل گئیں، اور لوٹ کی بکریوں کی شناخت باقی نہ رہی، جب امام ابوحنیفہؒ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپؒ نے لوگوں سے پوچھا کہ بکری زیادہ سے زیادہ کتنے سال زندہ رہ سکتی ہے تو لوگوں نے جواب دیا کہ سات سال، تو آپؒ نے کوفہ میں رہتے ہوئے سات سال تک بکری کا گوشت تناول نہیں فرمایا، کہ کہیں یہ وہی چرائی ہوئی بکر ی کا گوشت نہ ہو۔ (عقود الجمان )۲۴۴

اسی طرح ایک مرتبہ آپؒ ایک گھر کی دیوار کے قریب دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے، یحیٰ ابن ابی زائدہ وہاں سے گذرے، اما م صاحبؒ کو وہاں بیٹھا دیکھ کر انہوں نے کہا کہ حضرت! دھوپ میں بیٹھنے کے بجائے قریب میں دیوار کے سائے میں تشریف فرما ہوتے تو بہتر ہوتا۔ امام صاحبؒ نے جواب دیا کہ میرا اس گھر کے مالک پر قرض ہے اگر میں اس کی دیوار کے سایہ سے فائدہ اٹھاؤں گا تو مجھے اندیشہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ قرض پر نفع اٹھانے کی وعید میں داخل ہوجائے گا، اور میں اسے گوکہ عام لوگوں پر واجب نہیں سمجھتا، لیکن بات یہ ہے کہ عالم کو اپنے علم پر دوسروں سے زیادہ عمل پیرا ہونا چاہئے۔ (عقود الجمان )۲۴۴

کثرتِ عبادت:

انابت الی اللہ کے بغیر آدمی مرتبۂ کمال تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا، اسی بنا پر سلفِ صالحین کی زندگی میں تمام تر علمی مصروفیات کے باوجود کثرتِ عبادت اور اَوراد واَذکار کا اہتمام نمایاں نظر آتا ہے، اور اس بارے میں امام اَعظم حضرت اِمام اَبوحنیفہؒ کے حوالہ سے تو ناقابلِ یقین حالات آپؒ کی سیرت میں مذکور ہیں:

یحییٰ بن ایوب زاہدؒ کہتے ہیں کہ: ’’امام ابوحنیفہؒ رات کو نہیں سوتے تھے‘‘۔

حفص بن عبدالرحمنؒ کہتے ہیں کہ: ’’امام ابوحنیفہؒ نے تیس سال تک ہر رات ایک قرآنِ کریم پڑھنا کا معمول بنایا‘‘۔

متعدد روایات میں ہے کہ آپؒ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور ہر رات ایک قرآنِ کریم ختم کیا۔

یحییٰ بن فضیل کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں امام ابوحنیفہؒ تشریف لائے، تو بعض لوگوں نے آپ ؒکی طرف اشارہ کرکے کہا کہ: ’’یہ وہ صاحب ہیں جو رات بھر عبادت کرتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ حضرت امام صاحب ؒنے سن لیا، تو آپؒ نے فرمایا کہ ’’لوگ میرے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں، جب کہ اللہ کی نظر میں میں ایسا نہیں ہوں (یعنی اس وقت تک پوری رات عبادت کا معمول نہ تھا) تو اب میں تازندگی رات میں بستر پر نہ لیٹوں گا، چنانچہ آپ ؒنے اس کے بعد وفات تک یہ عزم نبھایا۔

اسی طرح بکثرت روزے رکھنے کا معمول بھی آپ ؒسے منقول ہے۔

عبد اللہ بن اسیرؒ کہتے ہیں کہ: ’’جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام ابوحنیفہؒ پوری طرح اپنے کو تلاوتِ قرآنِ کریم کے لئے فارغ فرمالیتے اور اخیر عشرہ میں تو عام بول چال بھی آپؒ پر گراں ہوتی تھی‘‘۔ (عقود الجمان ۲۱۱-۲۲۱

نوٹ:

 جن روایات میں 30 یا 40سال امام صاحب کا عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرنا منقول ہے، وہ بظاہر اکثر اور غالب پر محمول ہے، اور یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ امام صاحب کبھی آرام ہی نہ فرماتے تھے، اس لئے کہ خود بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپؒ گرمی کے زمانہ میں ظہر اور عصر کے درمیان آرام فرماتے تھے، اور سردیوں کے زمانہ میں رات کے شروع حصہ میں آرام فرماتے تھے، جیساکہ امام ذہبیؒ نے امام صاحبؒ کی بعض گھر کی عورتوں کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ (دیکھئے: عقود الجمان ۲۱۹، الانتقاء)

خوف وخشیت:

امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ ؒپر ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف وخشیت غالب رہتا تھا، خاص کر تنہائی میں عبادت کرتے وقت گریہ وبکا کی وہ کیفیت ہوتی کہ سننے والوں کو ترس آجاتا، رات میں آپ کے رونے کی آواز گھر سے باہر تک سنائی دیتی تھی۔

یحییٰ بن سعیدؒ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجالست ومصاحبت اختیار کی جب میں آپ کے چہرے کو دیکھتا تھا، تو فوراً مجھے احساس ہوجاتا تھا کہ وہ اللہ رب العزت سے ڈرنے والے ہیں۔

قاسم بن معنؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات میں امام ابوحنیفہؒ نے یہ آیت پڑھی: ’’بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہَی وَاَمَرُّ‘‘ (سورۃ القمر۴۶) (بل کہ قیامت ہے ان کے وعدہ کا وقت اور وہ گھڑی بڑی آفت ہے اور بہت کڑوی) تو پوری رات نہایت گریہ وزاری کے ساتھ یہی آیت دہراتے رہے۔ (عقود الجمان )۲۲۴

عبد الرزاق بن ہمامؒ کہتے ہیں کہ میں جب بھی امام ابوحنیفہؒ کو دیکھتا تو آپ کی آنکھوں اور رخساروں پر رونے کے آثار محسوس کرتا تھا، یزید بن کمیتؒ جو خود بھی اللہ کے نیک بندوں میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ: امام ابو حنیفہؒ اللہ تعالی سے انتہائی خشیت فرمانے والے تھے۔ ایک مرتبہ علی بن حسین موذن نے عشاء کی نماز میں سورۂ زلزال پڑھائی، امام ابوحنیفہؒ بھی جماعت میں شریک تھے، جب نماز ختم ہوئی اور لوگ چلے گئے تو میں نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ متفکر بیٹھے ہیں اور ان کا سانس تیز چل رہا ہے، میں نے سوچا کہ مجھے یہاں سے اٹھ جانا چاہئے تاکہ ان کی یکسوئی میں کوئی خلل نہ آئے، چناںچہ میں چراغ جلتا چھوڑکر مسجد سے چلا آیا، پھر صبح صادق کے وقت میں مسجد پہونچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہیں اور اپنی داڑھی پکڑ کر یہ دعا کررہے ہیں کہ ’’اے وہ ذات جو رائی کے دانے کے برابر بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دیتی ہے اور اے وہ ذات جو رائی کے دانے کے برابر برائی کا بدلہ برائی سے دینے والی ہے تو اپنے بندے نعمان (ابوحنیفہؒ) کو جہنم اور جہنم سے قریب کرنے والی چیزوں سے نجات عطا فرما، اور اپنی وسعت رحمت میں اسے داخل فرما‘‘۔ (عقود الجمان )۲۲۵

یحییٰ بن نصر کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب امام ابوحنیفہؒ کے دوست تھے، جس کی بنا پر میں کبھی کبھی امام صاحبؒ کے یہاں رات میں سوجاتا تھا تو میں دیکھتا کہ امام ابوحنیفہؒ پوری رات نماز میں مشغول رہتے اور میں چٹائی پر ان کے آنسوؤں کے گرنے کی آواز اس طرح سناکرتا تھا گویا کہ بارش ہورہی ہو۔ (عقود الجمان )۲۳۰

حضرت امام اعظمؒ کی چند خصوصیات:

علامہ محمد بن یوسف صالحی الدمشقی شافعیؒ (المتوفی ۹۴۲ھ) نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ النعمان‘‘ میں حضرت الامام کی گیارہ خصوصیات درج کی ہیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

1۔امام صاحب ؒکی پیدائش اس زمانہ میں ہوئی جب کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باحیات تھے، اور یہ زمانۂ ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ میں شامل ہے۔

2۔بعض صحابہ کی زیارت ورؤیت امام صاحبؒ کو نصیب ہوئی، اس بنا پر آپؒ کو شرفِ تابعیت حاصل ہے۔

3۔تابعین کے زمانہ میں اور بڑے بڑے ائمہ کی حیات میں حضرت الامام کو اجتہاد وافتاء کی خدمت انجام دینے کا موقع ملا، جو بڑے شرف کی بات ہے۔

4۔بڑے بڑے ائمہ فقہ وحدیث نے آپ سے روایات نقل کی ہیں، یہ بجائے خود آپ کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔

5۔کم وبیش چار ہزار اساتذہ سے آپؒ نے علم دین حاصل کیا۔

6۔آپ ؒکو ایسے بلند پایہ شاگرد ملے جو دیگر ائمہ کو نصیب نہیں ہوئے، جن میں سے ہر شاگرد اپنی جگہ آفتاب وماہتاب تھا، جیسے حضرت امام ابویوسفؒ، حضرت امام محمدؒ، حضرت امام زفرؒ وغیرہ۔

7۔حضرت امام اعظمؒ کو سب سے پہلی مرتبہ فقہ وفتاویٰ کی تدوین کا شرف حاصل ہوا، آپ ؒہی نے باب وار مسائل کو مرتب کرایا اور جزئیات ومسائل کی تخریج فرمائی۔ اس بارے میں پوری امتِ مسلمہ تاقیامت آپ کی رہین منت رہے گی، اور یہ عظیم خدمت آپ کے لئے رفع درجات کا سبب بنتی رہے گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔

8۔حضرت امام اعظمؒ کا فقہی مسلک عالم کے چپہ چپہ تک پھیل گیا، خاص کر برصغیر، روس، چین اور برما میں غالب اکثریت نے آپ کی پیروی کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

 9۔آپؒ خود اپنی ذاتی کمائی سے اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات پوری فرماتے تھے، اور حکومتوں کے وظائف وغیرہ کے محتاج نہ تھے۔

10۔آپ ؒکی وفات انتہائی مظلومیت کی حالت میں قید خانہ میں بحالتِ سجدہ ہوئی، رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً۔

11۔آپؒ اپنے دور میں ورع وتقویٰ اور کثرتِ عبادت میں ممتاز رہے۔ 

(عقود الجمان ۱۷۹-۱۸۵ طبع مکتبۃ الایمان مدینہ منورہ)

سببِ وفات عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے امام صاحبؒ کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) بنانے کی پیش کش کی، مگر آپؒ نے اس سے انکار فرمایا، مگر منصور نے قسم کھاکر شدت سے اصرار کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ پیش کش قبول نہ کی تو سختی کی جائے گی اور قیدمیں ڈال دیا جائے گا، مگر آپ ؒبرابر انکار فرماتے رہے۔ چنانچہ آپ ؒکو کوفہ سے بغداد لاکر قید کردیا گیا، اور روزانہ بھرے بازار میں لاکر کوڑے لگانے کا حکم ہوا، دس دن تک یہی عمل آپؒ کے ساتھ دوہرایا گیا، اورکوڑے بھی اتنے شدید مارے گئے کہ آپ ؒلہولہان ہوگئے اور اِیڑیوں تک خون بہہ پڑا، پھر آپ کو قید بامشقت میں ڈال دیا گیا، اور زبردستی زہر پلایا گیا، جس کی وجہ سے چند ہی روز میں قید خانہ میں ہی بحالتِ سجدہ آپ ؒکی وفات ہوگئی، رحمہ اللہ عالیٰ رحمۃً واسعۃً۔

دراصل خلیفہ منصور کو یہ شبہ ہوگیا تھا کہ خانوادۂ اہل بیت کے قائد ’’ابراہیم بن عبد اللہ‘‘ کی بصرہ کے علاقہ میں حکومت کے خلاف بغاوت میں امام صاحب کی تائید بھی شامل ہے، اِسی پر برافروختہ ہوکر منصور نے امام صاحب ؒکے ساتھ یہ ظالمانہ برتاؤ کیا۔ (مقدمہ اوجز المسالک ۱؍۱۷۷ وغیرہ)

آپ ؒکی وفات کی خبر سے پورے بغداد میں کہرام مچ گیا، ہر طرف رنج وغم کے بادل چھاگئے، قاضی بغداد علامہ حسن بن عمارہؒ نے آپؒ کو غسل دیا، اور پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کی (جو اس زمانہ کے اعتبار سے بے مثال تعداد ہے، اور آپؒ کی مقبولیت کی کھلی دلیل ہے) مجمع کی کثرت کی وجہ سے چھ مرتبہ جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔

آپ ؒنے وفات سے قبل وصیت کی تھی کہ مجھے کسی ایسی جگہ دفن نہ کیا جائے جس کے غصب ہونے کا شبہ ہو، چنانچہ بغداد میں ’’مقبرۂ خیزران‘‘ میں آپ ؒکی تدفین عمل میں آئی۔

آپؒ کی وفات کا واقعہ 150ھ میں پیش آیا، اس وقت آپ ؒکی عمر مبارک ستر برس تھی۔ 

(ابوحنیفہ؛ حیاتہ وعصرہ ۵۹-۶۰، عقود الجمان ۳۵۷-۳۶۲ طبع مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ، فضائل ابی حنیفہ )۳۸

وفات کی اطلاع ملنے پر فقیہ مکہ علامہ ابن جریجؒ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انا للہ پڑھی اور فرمایا کہ: ’’کیسا عظیم علم رخصت ہوا؟‘‘۔

اور محدث جلیل امام شعبہؒ نے انا للہ پڑھتے ہوئے فرمایا کہ: ’’کوفہ سے علم کی روشنی بجھ گئی، اب کوفہ والے اس جیسی شخصیت کبھی نہ دیکھیں گے‘‘۔

علامہ علی بن صالح بن حئیؒ نے فرمایا کہ: ’’عراق کا مفتی اعظم اور فقیہ وقت رخصت ہوا‘‘۔

بشر بن عثمان مروزیؒ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کی وفات کے بعد حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ بغداد تشریف لائے، اور فرمایا کہ مجھے بتاؤ کہ حضرت الامام ؒکی قبر کہاں ہے؟ چنانچہ آپ قبر مبارک پر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ: ’’ابوحنیفہ! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، فقیہ العصر امام ابراہیم نخعیؒ کی وفات ہوئی تو انہوں نے اپنا جانشین چھوڑا، پھر حماد بن ابی سلیمانؒ نے رحلت فرمائی تو وہ بھی اپنا جانشین چھوڑگئے؛ لیکن اے ابوحنیفہ! آپؒ نے اس حالت میں رحلت فرمائی ہے کہ روئے زمین پر کوئی آپ ؒکا جانشین نہیں ہے‘‘۔ یہ کہہ کر حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ بہت روئے۔

 (مقدمہ: کتاب الآثار ۱؍۸۴)انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً۔

استفادہ از : دارالشیبانی للإفتاء التحقیق تحصیل پہاڑپور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان